کچھ ماہ پہلے ہی کی بات کہ جب وہ عید کے دن صبح سویرے ہمارے گھر آئی اور میری اہلیہ سے کچھ بات بات کرتے کرتے رونے لگی میں نے پوچھا تو بیگم نے بتایا کہ یہ اور اس کے یتیم بچے رات چاند رات کو بھوکے سوئے ہیں وجہ پوچھی تو پتہ چلا جن رشتہ داروں کے گھر میں وہ اپنے یتیم بچوں کے ساتھ رہتی ہے انہوں نے اسے اور اس کے بچوں کو رات کو پیٹا بھی اور کھانا بھی نہیں بنانے یا کھانے د یا میں عید کی تیاری کرتے کرتے دھک سے رک گیا اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے میری اہلیہ نے گھر میں پکی ہوئی سویاں اسے دی اوراسے کچھ دلاسہ دیا اور کہا کہ جاؤ خود بھی کھاؤ اور بچوں کو بھی کھلاؤمیں نے اسے کچھ پیسے دئے کہ گوشت منگوا کر پکا لووہ بیچاری چپ سادھے گھر لوٹ گئی لیکن اس دن (عید کے دن)بھی اس کے بچوں نے پٹھے پرانے کپڑے اور ٹوٹے ہوئے جوتے پہنے ہوئے تھے
اب چند ماہ بعد کی بات سُنیں
ایک دن صبح اچانک پتہ چلا کہ وہ رات کو توصحیح سوئی لیکن دوبارہ نہ اُٹھی اب منظر بالکل بدل گیا وہی گھر والے جلد ازجلد اسکے لئے مکہ مکرمہ سے لایا ہوا کفن بھی لے آئے اور ساتھ ہی اس کے بچوں کیلئے(اور ساتھ ہی ختم شریف کیلئے) اچھے اچھےکھانے بننے لگے ہر کوئی اسکے بچوں کو جیب خرچ دینے لگا اور دوسری طرف دیگوں کی پکوائی شروع ہو گئی اور سینکڑوں کا مجمع اسے رونے کیلئے آن پہنچا
اور اسی طرح چالیسویں تک یہ سلسلہ زوروشور سے جاری رہا ساتواں، اکیسواں،اور پتہ نہیں کیا کچھ ہوا اور ہر دفع ختم
شریف میں نیاسوٹ اور نئے جوتے اور برتن وغیرہ رکھے جاتے رہے
اب آپ خود ان دونوں مناظر کا تقابل کریں کی جب تک وہ بیوہ خاتون زندہ تھی تو اسے اور اس کے بچوں کو اچھا پہننا تو دور کی بات اچھا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا پر آنکھیں بندکرنے کی دیر تھی کہ کیا کچھ ہو گیا اب آگے اس کے بچوں کے ساتھ کیا ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا پر وہ تو اس درد بھری دنیا سے اپنی جان چھُڑاکرچل بسی
مجھے تو یہ محسوس ہوا کہ مردہ کی قیمت زندہ سے زیاد ہے