Sunday 3 April 2016

بے حسی

1 comments

کچھ ماہ پہلے ہی کی بات کہ جب وہ عید کے دن صبح سویرے ہمارے گھر آئی اور میری اہلیہ  سے کچھ بات بات کرتے کرتے رونے لگی میں نے پوچھا تو بیگم نے بتایا کہ یہ اور اس کے یتیم بچے رات  چاند رات کو بھوکے سوئے ہیں وجہ پوچھی تو پتہ چلا جن رشتہ داروں کے گھر میں وہ اپنے یتیم بچوں کے ساتھ رہتی ہے انہوں نے اسے اور اس کے بچوں کو رات کو پیٹا بھی اور کھانا بھی نہیں بنانے یا کھانے د یا میں عید کی تیاری کرتے کرتے دھک سے رک گیا اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آئے میری اہلیہ نے گھر میں پکی ہوئی سویاں اسے دی اوراسے کچھ دلاسہ دیا اور کہا کہ جاؤ خود بھی کھاؤ اور بچوں کو بھی کھلاؤمیں نے اسے کچھ پیسے دئے کہ گوشت منگوا کر پکا لووہ بیچاری چپ سادھے گھر لوٹ گئی لیکن اس دن (عید کے دن)بھی اس کے بچوں نے پٹھے پرانے کپڑے اور ٹوٹے ہوئے جوتے پہنے ہوئے تھے
اب چند ماہ بعد کی بات سُنیں
ایک دن صبح اچانک پتہ چلا کہ وہ رات کو توصحیح سوئی لیکن دوبارہ نہ اُٹھی اب منظر بالکل بدل گیا وہی گھر والے جلد ازجلد اسکے لئے مکہ مکرمہ سے لایا ہوا کفن بھی لے آئے اور ساتھ ہی اس کے بچوں کیلئے(اور ساتھ ہی ختم شریف کیلئے)  اچھے اچھےکھانے بننے لگے ہر کوئی اسکے بچوں کو جیب خرچ دینے لگا اور دوسری طرف دیگوں کی پکوائی شروع ہو گئی اور سینکڑوں کا مجمع اسے رونے کیلئے آن پہنچا
اور اسی طرح چالیسویں تک یہ سلسلہ زوروشور سے جاری رہا ساتواں، اکیسواں،اور پتہ نہیں کیا کچھ ہوا اور ہر دفع ختم
شریف میں نیاسوٹ اور نئے جوتے اور برتن وغیرہ رکھے جاتے رہے
اب آپ خود ان دونوں مناظر کا تقابل کریں کی جب تک وہ بیوہ خاتون زندہ تھی تو اسے اور اس کے بچوں کو اچھا پہننا تو دور کی بات اچھا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا پر آنکھیں بندکرنے کی دیر تھی کہ کیا کچھ ہو گیا اب آگے اس کے بچوں کے ساتھ کیا ہو گا یہ تو وقت ہی بتائے گا پر وہ تو اس درد بھری دنیا سے اپنی جان چھُڑاکرچل بسی
مجھے تو یہ محسوس ہوا کہ مردہ کی قیمت زندہ سے زیاد ہے

Monday 28 March 2016

احساس

1 comments

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 


کسک

کسک" نام ہے اس احساس اور چھبن کا" جو معاشرتی بے حسی ، غفلت اور بے اعتناعی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ 

ہم روز صبح اپنے معمولات زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور رات سونے تک کوہلو کے بیل کی طرح چلتے رہتے ہیں صبح ناشتہ اور تیاری کے بعد دفتریا کاروباری مرکز اور پھر سارادن وہیں پر مخلتف النوع مصروفیات ،کام کاج کھانا پینا اور پھر رات کو سکون سے جاکر سو جانا کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے آفس،کاروباری مرکز پریا محلے میں کہیں کوئی ایسا انسان تو نہیں کہ جس کے بچے صبح اسکے نکلنے کے وقت سے انتظار میں بیٹھے ہوں کہ شام کو بابا آئیں گے تو سکول کی کتابیں لیں گے،کھانے کو اچھا کھانا لیں گے سکول کیلئے نیا بستہ لیں گے لیکن "بابا"تو آج بھی خالی ہاتھ لوٹ آئے جو تھوڑی بہت تنخواہ ملی وہ تو دودھ والے اور دکان والے کے ہی پورے نہیں ہوئے بچوں کے ارمان تو دور کی بات انکی ضروریات بھی پوری کرنے کو ترستے رہ گئے
 ہم اگر تھوڑاسا احساس ذمہ داری کامظاہرہ کریں اور دیکھیں کہ ان دنوں نئی کلاسز کا آغاز ہے تو کہیں کوئی ایسا بچہ تو ہمارے گردو نواح میں نہیں ہے جو صرف اس وجہ سے سکول جانے سے محروم ہو کہ اسکے "بابا" یا تو اس دنیا میں ہی نہیں (خدانہ خواستہ)یا اگر ہیں تو انکے پاس اتنی ہمت اور استظاعت نہیں ہے کہ وہ بچوں کو سکول کی ضروریات پوری کر سکے۔
تو بچے یا تو سکول جاتے ہی نہیں اور اگر جاتے ہیں تو ٹیچر سے ڈانٹ ڈپٹ کھا کر واپس آجاتے ہیں۔ہمارے ملک میں حکومت کے پاس تو اس مقصد کیلئے کوئ بجٹ ہی نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کی ضروریات بھی پوری کی جاسکیں پر ہمیں بطور انسان خصوصاََ مسلمان اس طرف ضرور توجہ دینی چاہیئے اگرچہ میں اکیلا یاآپ سب کی ضروریات پوری نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہمت اور استطاعت کے مطابق اپنے حصے کا فرض ادا کرکے کل کو اسکے دربار میں سرخروتو ہو سکتے ہیں 
بہر حال حقیقت یہ ہے کہ آج پھر امت مسلمہ کو ایک اور عمررض کی ضرورت ہے کہ جس کے عدل کی بدولت لوگ زکٰوۃ ،صدقات ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہوتے لیکن کوئی لینے وال نہ ملتا تھا 
 ہمیں بارش کا پہلا قطرہ بننے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے

"سابقوا الیٰ مغفرۃ من ربکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"